Poetry / Sad

Muzammil Shahzad

جہاں پر برف گرتی ہے
جہاں پتھر کے نیچے پھول کھلتے ہیں
جہاں چشمے ابلتے ہیں
جہاں بارش برستی ہے
برستی بارشوں میں بھی
جہاں کہسار جلتے ہیں
ہمیں اپنے پرانے خواب کی انگلی پکڑ کر
ایک وادی میں اترنا ہے
جہاں دشمن کا قبضہ ہے
یہ وہ قطعہ جس پر مصطفے نے فصل بوئ تھی
یہا ں دشمن کی چوکی ہے
ادھر وہ کنج جس میں فاطمہ نے گھر بنایا تھا
وہاں پر خان? ایذا رسانی ہے
وہ میداں جس میں ننھے
کھیل میں مصروف رہتے تھے
وہاں پر ٹینک چلتے ہیں
چلو دشمن سے ملتے ہیں
ہمیں اک بار پھر اس سے یہ کہنا ہے
ستم ڈھاؤ
اجازت ہے تمہیں دنیا کے سارے منصفوں
انسانیت کے ٹھیکے داروں کی،
ستم ڈھاؤ مگر اتنا تو بتلاؤ
کہ تم یہ جان لے لو گے
تو کیا ایمان بھی لو گے؟
ہمارا خوں بہاؤ گے
تو کیا جو خون میں شامل ہے
وہ پیمان بھی لو گے؟
دیے جب تم بجھا دو گے
تو کیا پھر انجم و مہتاب لوٹو گے؟
ہماری نیند تو تم لوٹ سکتے ہو
مگر کیسے ہمارا خواب لوٹو گے؟

Advertisement
· 1 Like · Mar 13, 2016 at 18:03
Category: sad
 

Latest Posts in poetry

Sajdah karte waqt ehtiyat.
Posted by Sobia Malik
Posted on : Nov 29, 2015

Random Post

Sponored Video

New Pages at Social Wall

New Profiles at Social Wall

Connect with us


Facebook

Twitter

Google +

RSS