Qasas ul Anbiya
Title: Hazrat Zikariya (A.S) Aur Hazrat Yahya (A.S)
Total Records: 9 - Total Pages: 9 - Current Page: 5
اور اس کي بيوي کو اس کے ليے درست کرديا? يہ بزرگ لوگ نيک کاموں کي طرف جلدي کرتے تھے اور ہميں اميد اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزي کرنے والے تھے?“
(الا?نبيائ: 90/21) بيوي کو درست کرنے کا مطلب ان کے نظام توليد کا درست ہونا اور ماہانہ نظام کا دوبارہ جاري ہونا ہے? کہنے لگے: ”ميرے پروردگار! ميرے ليے کوئي علامت مقرر فرمادے?“ تاکہ مجھے معلوم ہوجائے کہ حمل قرار پاچکا ہے? ارشاد ہوا: ”تيرے ليے علامت يہ ہے کہ باوجود بھلا چنگا ہونے کے تو تين راتوں تک کسي شخص سے بول نہ سکے گا?“ يہ خوش خبري ملنے پر آپ خوش خوش حجرے سے باہر تشريف لائے‘ تو ہم نے ان کي طرف وحي کي کہ ”تم صبح شام اللہ تعالي? کي تسبيح بيان کرو?“
حضرت مجاہد‘ عکرمہ‘ وہب اور سدي رحمة اللہ علہيم فرماتے ہيں: آپ کي زبان بغير کسي مرض کے بند ہوگئي تھي? ابن زيد? فرماتے ہيں: ”آپ تلاوت کرسکتے تھے، ذکر و تسبيح کرسکتے تھے ليکن کسي سے بات چيت نہيں کرسکتے تھے?“ تفسير الطبري: 6/9 تفسير سورة مريم‘ آيت: 9

يحيي? عليہ السلام کو کتاب اور حکمت و دانائي عطا کي

ارشاد باري تعالي? ہے:
”اے يحيي?! (ميري) کتاب کو مضبوطي سے تھام لے‘ اور ہم نے اسے لڑکپن ہي سے دانائي عطا فرمادي?“ (مريم: 12/19) اللہ تعالي? نے خوش خبري کے مطابق حضرت زکريا عليہ السلام کو بيٹا عطا فرما ديا اور اس بيٹے (يحيي?) کو بچپن ہي ميں کتاب کا علم اور دانائي عطا فرمادي?
حضرت معمر? فرماتے ہيں: بچوں نے حضرت يحيي? عليہ السلام سے کہا: ” آؤ کھيليں!“ آپ نے فرمايا: ”ہميں کھيلنے کے ليے پيدا نہيں کياگيا?“ اللہ تعالي? کے اس فرمان: ” اور ہم نے اسے لڑکپن ہي سے دانائي عطا فرمادي?“ کا يہي مطلب ہے?
ارشاد باري تعالي? ہے: ”اور اپنے پاس سے شفقت“ يعني ہم نے حضرت زکريا عليہ السلام پر رحمت کي کہ انہيں حضرت يحيي? عليہ السلام عطا فرمائے? عکرمہ? فرماتے ہيں: شفقت يعني محبت کا مطلب يہ ہے کہ حضرت يحيي? عليہ السلام لوگوں پر ترس کھاتے تھے اور خاص طور پر اپنے والدين سے شفقت و محبت کا اظہار کرتے تھے اور ان سے حسن سلوک کرتے تھے? ?وَزَک?وةً? ”اور پاکيزگي بھي عطا فرمائي?“ يعني عمدہ اخلاق، بري عادات سے مبرا ہونا، تقوي?، اللہ تعالي? کے احکام کي تعميل اور ممنوع کاموں سے اجتناب? يہ سب پاکيزگي ميں شامل ہے? ” اور وہ اپنے ماں باپ سے نيک سلوک کرنے والا تھا? وہ سرکش اور گناہ گار نہ تھا?“ (مريم: 14/19) پھر فرمايا: ”اس پر سلام ہے جس دن وہ پيدا ہوا، جس دن فوت ہوگا اور جس دن زندہ کرکے اُٹھايا جائے گا?“ (مريم: 15/19) يہ تين مراحل انسان کے ليے بڑے کٹھن ہيں? ان موقعوں پر وہ ايک جہان سے دوسرے جہان ميں منتقل ہوتا ہے? وہ پہلے جہان سے مانوس ہوچکا ہوتا ہے، پھر اسے چھوڑ کر دوسرے جہان ميں جانا پڑتا ہے جس کے بارے ميں اسے کچھ معلوم نہيں ہوتا کہ وہاں کيا حالات پيش آنے والے ہيں؟ اس ليے جب وہ ماں کے جسم سے جدا ہوتا ہے تو روتا اور چيختا ہے اور غم و تفکرات کا سامنا کرنے کے ليے اِس جہان ميں منتقل ہوجاتا ہے?
PREVIOUS NEXT

Random Post

Sponored Video

New Pages at Social Wall

New Profiles at Social Wall

Connect with us


Facebook

Twitter

Google +

RSS