Qasas ul Anbiya
Title: Hazrat Aadam (A.S)
Total Records: 36 - Total Pages: 36 - Current Page: 3
کي اولاد کے نام سکھائے?“تفسير ابن کثير:131'130/1‘تفسير سورة البقرة ‘ آيت:33-31
زيادہ صحيح رائے يہ ہے کہ انہيں چھوٹي بڑي اشيا اور ان کے افعال و حرکات کے نام سکھائے گئے? جيسے ابن عباس رضي اللہ عنہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے?
حضرت انس بن مالک رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ ? نے فرمايا: ”قيامت کے دن مومن جمع ہوکر کہيں گے کہ اگر ہم کسي سے اللہ کے سامنے سفارش کروائيں (تو اس مشکل مرحلہ سے نجات مل جائے)‘ چنانچہ وہ آدم عليہ السلام کي خدمت ميں حاضر ہو کر عرض کريں گے: آپ تمام انسانوں کے جدامجد ہيں، آپ کو اللہ تعالي? نے اپنے ہاتھوں سے پيدا فرمايا اور اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کروايا اور آپ کو تمام اشيا کے نام سکھائے‘ اپنے رب کے سامنے ہماري سفارش فرمائيے تاکہ ہميں اس مرحلے سے نجات نصيب ہو?“ صحيح البخاري‘ التفسير‘ باب قول اللہ تعالي? ”وعلم آدم الا?سماءکلھا“ حديث:4476 و صحيح مسلم‘ الايمان‘ باب ا?دني ا?ھل الجنة منزلة فيھا‘ حديث:193
اللہ تعالي? کے فرمان: ”پھر ان چيزوں کو فرشتوں کے سامنے پيش کيا اور فرمايا: اگر تم سچے ہو تو ان چيزوں کے نام بتاؤ?“ کي تفسير ميں حضرت حسن بصري ? بيان کرتے ہيں: ”جب اللہ تعالي? نے حضرت آدم عليہ السلام کي تخليق کا ارادہ رفرمايا تو فرشتوں نے کہا: ”اللہ تعالي? جو مخلوق بھي پيدا فرمائے گا، ہمارے پاس اس سے زيادہ علم ہوگا‘ چنانچہ ان کا امتحان لياگيا‘ اسي ليے اللہ تعالي? نے فرمايا: ”اگر تم سچے ہو?“
اللہ تعالي? کے فرمان:” فرشتوں نے کہا: اے اللہ! تيري ذات پاک ہے، ہميں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تونے ہميں سکھا رکھا ہے? تو ہي پورے علم و حکمت والا ہے?“ کا مطلب يہ ہے: ”اے اللہ! تو پاک ہے? کوئي بھي تجھ سے علم حاصل نہيں کرسکتا سوائے اس کے جو تونے انہيں سکھايا?“ جيسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
”وہ اس کے علم ميں سے کچھ بھي حاصل نہيں کرسکتے مگر جو وہ (خود دينا) چاہے?“
(البقرة: 255/2)
اسي طرح درج ذيل فرمان ال?ہي سے بھي معلوم ہوتا ہے کہ ظاہر اور پوشيدہ امور کا علم اللہ تعالي? ہي کو ہے:
”اللہ تعالي? نے (آدم کو) حکم ديا کہ تم ان کو ان (چيزوں) کے نام بتاؤ‘ جب انہوں (آدم) نے اُن کے نام بتائے تو اللہ تعالي? نے (فرشتوں سے) فرمايا: کيوں! ميں نے تم سے نہيں کہا تھا کہ ميں آسمانوں اور زمين کي (سب) پوشيدہ باتيں جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو پوشيدہ کرتے ہو (سب) مجھ کو معلوم ہے?“ (البقرة: 33/2)
ايک قول کے مطابق ”ميں جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو“ سے مراد فرشتوں کا يہ کہنا ہے: ”کيا تو زمين ميں وہ مخلوق پيدا کرے گا جس اس ميں فساد کرے?“ اور ”جو تم چھپاتے تھے?“ اس سے مراد ابليس کا اپنے دل ميں تکبر کا جذبہ رکھنا اور آدم عليہ السلام سے افضل ہونے کا خيال ہے? حضرت سعيد بن جبير، مجاہد، سدي، ضحاک، ثوري اور ابن جرير رحمة اللہ عليہم کي يہي رائے ہے?
PREVIOUS NEXT
Duo Maintenant
Posted by Sports and Games Videos
Posted on : May 31, 2017

Random Post

Sponored Video

New Pages at Social Wall

New Profiles at Social Wall

Connect with us


Facebook

Twitter

Google +

RSS